لاہور گورنر ہاؤس میں وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس کی دھوم پورے ملک میں مچ گئی،پی ٹی آئی میں اختلافات کی کہانیاں اور وزیر خارجہ کے بارے میں منفی یا اختلافی خیالات عام ہونے لگے۔وزیر خارجہ نے جہاں جہانگیر ترین کی وفاقی کابینہ کے اجلاس میں آمد کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی نفی قرار دیا،وہاں انہوں نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے
خاندان کے سیاسی مستقبل پر بھی قیاس آرائی کرنی ضروری سمجھی اور دونوں باتوں کا جواب اسی روز میڈیا پر آ گیا۔ تحریک انصاف کے بیشتر زعماء نے جہانگیر ترین کو جماعت کا اثاثہ قرار دیتے ہوئے ان کی حمایت کی۔ان کی کابینہ کے اجلاس میں شرکت کو پارٹی سربراہ کی خواہش اور دعوت قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کے بارے میں بندشیں لگاتا پھرے، اس سارے قصّے میں اہم بات یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی کی حمایت میں کسی طرف سے کوئی ایک لفظ بھی نہیں آیا۔اس سے ایک بات واضح ہوتی ہے اور وہ یہ کہ قریشی صاحب پارٹی میں تنہائی کا شکار ہیں۔ وہ اپنے بارے میں عرب شاعروں کی طرح کتنی بھی خود ستائشی کر لیں اُن کی حمایت میں کوئی اور موجود نہیں ہے۔ پاکستان میں گزشتہ تین دہائیوں سے برسر اقتدار رہنے والی ہر جماعت کے ساتھ وہ رہے ہیں۔انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز ضیا الحق کی غیر جماعتی اسمبلی سے کیا تھا، ان کے والد بھی ضیا الحق حکومت میں پنجاب کے گورنر تھے۔ وہ مسلم لیگ (ن) میں رہے۔پاکستان پیپلزپارٹی کے وزیر خارجہ رہے اور اب پی ٹی آئی کے وزیر خارجہ ہیں۔ عمومی طور پر دیکھا گیاہے
کہ علاقائی حیثیت رکھنے والے سیاسی افراد ایک سیاسی حلقہ رکھتے ہیں،جن میں اُن کے رفیقِ کار اُن کا ساتھ دیتے ہیں اور وہ اپنے رفقا کار کو سیاسی حوالے سے ’’پروموٹ‘‘ کرتے ہیں۔شاہ محمود قریشی کے ایسے رفقائے کار نہ مسلم لیگ(ن) میں تھے، نہ پیپلزپارٹی اور نہ ہی اس واقعہ کے بعد پی ٹی آئی میں نظر آ رہے ہیں، لیکن ایک بات غور طلب ہے اور وہ یہ کہ انہوں نے یہ سب باتیں کہنے کے لئے گورنر ہاؤس پنجاب کا انتخاب ہی کیوں کیا۔ کیا وہ گورنر پنجاب کو اپنا ساتھی اور ہم خیال ثابت کرنا چاہتے ہیں۔اس پریس کانفرنس کے اگلے ہی روز وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے گورنر چودھری محمد سرور کو اسلام آباد طلب کر لیا اور خبروں کے مطابق دیگر امور کے علاوہ پنجاب کی مجموعی صورتِ حال پر بات کی گئی، یعنی پنجاب کے معاملات زیر غور آئے۔ ظاہر ہے پنجاب کے معاملات میں سیاسی معاملات کو ہی اولیت دی گئی ہو گی۔اگر پنجاب کے ترقیاتی، تعلیمی اور روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی کے معاملات زیر غور آئے ہوتے تو ان کا ذکر ضرور کیا جاتا، کیونکہ اس وقت یہ وہ معاملات ہیں جو عوام کی زندگی کو درپیش ہیں، خاص طور پر مہنگائی کا
معاملہ، یہ چونکہ براہِ راست وزیراعلیٰ کے لئے سوچنے کی بات ہے اور وزیراعلیٰ اپنے والدِ بزرگوار کی وفات کے سبب ان دِنوں اپنے آبائی علاقے میں تھے، لہٰذا ان امور پر بات شاید نہ ہوئی ہو۔ وزیراعلیٰ کے والد کی اچانک رحلت نے وزیراعلیٰ کے تمام سرکاری فرائض معطل کر دیئے ہیں،اِس لئے یہ خیال وزن رکھتا ہے کہ سرور چودھری اور عمران خان کے درمیان ملاقات کا ایجنڈا وزیر خارجہ کے بیان کا متن ہی ہو گا۔سیاسی جماعتوں میں اختلافات جمہوری مزاج کا حصہ ہیں۔دُنیا میں کوئی ایسی پارٹی موجود نہیں جس کے اندر تضاد موجود نہ ہو۔اندرونی جمہوریت اور اختلاف ہی سیاسی جماعتوں کی قوت بنتا ہے،جہاں پارٹی کے اندر جدوجہد پارٹی پروگرام کو نافذ کرنے میں مدد دیتی ہے۔پارٹی کی اندرونی جدوجہد ہی سے پارٹی کی مضبوط قیادت سامنے آتی ہے،لیکن پارٹی میں اختلافِ رائے کبھی ڈسپلن کو نہیں توڑتا۔یہ اختلاف ہی انتشار کہلاتا ہے۔ اس نکتہ کو عمران خان سمجھتے ہوں گے اور ایک طویل سیاسی تجربہ رکھنے اور برطانیہ جیسے ملک میں سیاسی زندگی گزارنے والے چودھری سرور تو اس فرق کو کچھ زیادہ ہی سمجھتے ہوں گے۔اس وقت ملک کو ایک
مستحکم سیاسی حکومت کی ضرورت ہے۔ شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین اور چودھری محمد سرور کو اس کا سب سے زیادہ احساس ہونا چاہئے، کیونکہ یہی اصحاب ہی پارٹی کی سیکنڈ لائن قیادت ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں روز بروز بوجوہ ایک دوسرے کے قریب آ رہی ہیں اور وہ کسی بھی وقت حکومت کے خلاف کسی بڑے احتجاج کی کال دے سکتی ہیں، جس کا ملک اس وقت متحمل نہیں ہو سکتا۔ پی ٹی آئی کی حکومت کا استحکام ملک کی معیشت اور وفاق کے استحکام کے لئے انتہائی ضروری ہے اور اس کا احساس پی ٹی آئی کی قیادت کو ہونا چاہئے۔(تحریر: صدیق اظہر)